دفاعی موضوعات پہ اردو مقالات | World Defense

دفاعی موضوعات پہ اردو مقالات

safriz

MEMBER
Joined
Oct 16, 2019
Messages
164
Reactions
292 11 0
Country
Pakistan
Location
United Kingdom
فروری26 کی رات کو 3 بجے بھارتی فضائیہ پاکستانی سرحدوں کی طرف چار اطراف سے بڑھی ۔
جنوب میں کیٹی بندر کے قریب ، سر کریک کی جانب سے ۔
وسطی پاکستان میں پاکپتن کے مشرق میں فازلکہ سیکٹر اور رحیم یار خان کی طرف سے،اور سب سے بڑی تعداد میں کشمیر کی طرف سے آئے ۔
اسوقت پاکستانی فضائیہ کے فضائی گشت یا کومبیٹ ائر پٹرول پہ موجود جنگی جہازوں نے باقی تین اطراف سے تو بھارتی فضائیہ کو پاکستانی سرحد کے قریب بھی نہ آنے دیا۔ لیکن کشمیر کی طرف آنے والا بھارتی فضائی بیڑا کافی بڑا تھا جس میں آٹھ ایس یو تیس ایم کے آئ اور بارہ میراج ٹو تھاؤزن تھے ۔
اس بڑے بھارتی حملے کو روکنے کے لئے پی اے ایف کو مزید جھاز درکار تھے ۔
کیونکہ پہلے سے ہوا میں موجود جھاز باقی تین محاذوں پہ مصروف ہو گئے تھے ۔
فوری دستیابی یعنی سکریمبل کے لئے موجود پاکستانی جنگی جہاز چند منٹوں میں ہر پاکستانی فضائی اڈے سے فضا میں بلند ہوئے اور اس کثیر التعداد پاکستانی حرکت کو بھارتی زمینی ریڈارز نے بھی دیکھا اور ان کے حملے کے لئے آنے والے جنگی جہازوں نے بھی دیکھا اور ان کے کنٹرول ٹاور نے اپنے فضائی بیڑے کو متنبہ کیا ۔
آٹھ بھارتی ایس یو تھرٹی جو کہ دورمار فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے لیس تھے ، اور میراج ٹو تھاؤزن کی بمبار ٹیم کی فضائی حفاظت پہ مامور تھے ، وہ درجنوں پاکستانی جھاز اپنی طرف آتے دیکھ کر پیچھے رہ گئے۔
بارہ بھارتی میراج ٹو تھاؤزن جو کہ پر لگے خودکار پرواز کرنے والے دور مار بموں سے لیس تھے ان میں سے بھی آٹھ پیچھے رہ گئے اور صرف چار آگے آۓاور چند کلومیٹر پاکستانی حدود میں داخل ہو کر جلد بازی میں بغیر ٹھیک نشانہ لئے اپنے بم گرا کر واپس پلٹ گئے ۔
اسرائیلی ساختہ، اسپائس نامی پر لگے یہ بم خودکار پرواز کرتے ہوئے مزید آگے جا کر بالاکوٹ میں ایک خالی پہاڑ پہ جا گرے ۔
ان بموں کو بنانے والی اسرائیلی ہتھیار ساز کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا بم نشانے کے تین میٹر کے اندر گرے گا ۔ اس بم کے آگے کیمرا لگا ہوتا ہے اور اس کے کمپیوٹر میں ٹارگٹ کی تصویریں پہلے سے داخل کی ہوئی ہوتی ہیں۔ نشانہ کے قریب پہنچ کر اسپائسی بم کا کیمرہ علاقے کی تصویریں لیتا ہے اور اپنے کمپیوٹر میں موجود نشانہ کی تصویر سے موازنہ کرتا ہے اور پھر اسی حساب سے رخ درست کر کہ ٹارگٹ پہ جا لگتا ہے ۔
لیکن چونکہ بم کا اپنا کوئی انجن نھیں ہوتا اور یہ کاغذ کے جہاز کی طرح صرف فضا میں تیر سکتا ہے ۔ اس لئے مخصوص فاصلے پہ جا گرا لگنے کے لئے اسے پہلے سے حساب لگائ گئ اور طے شدہ اونچائی ، رفتار اور جگہ پہ جھاز سے گرانا ہوتا ہے ۔
اگر اسے طے شدہ فاصلے سے پہلے گرا دیا جائے تو یہ ٹارگٹ تک نھیں پہنچ پائے گا اور کہیں پہلے گر جائے گا۔

اس دوران پندرہ منٹ کے قلیل عرصے میں پاک فضائیہ کے تمام تر اثاثہ جات یا تو پرواز کر چکے تھے یا رن وے پہ تیار کھڑے تھے ۔

بھارتی اتنا گھبرا گئے کہ جدید اور مہنگے اور کافی ٹھیک نشانہ پہ بیٹھنے کی صلاحیت والے بم کو مطلوبہ مقام سے پہلے ہی فضا میں چھوڑ کر واپس پلٹ گئے اور نتیجتاً بم نشانہ تک پرواز نہ کر سکا اور پہلے ہی گر گیا ۔
اسی صبح افواج پاکستان کے شعبہ عوامی روابط کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے برملا اعلان کیا کہ حکومت وقت کے مشورے کے بعد افواج پاکستان بھارت کی گزشتہ رات کی "کوا مار مہم" کا جواب ضرور دیں گے ۔

اس اعلامیے کے بعد بھارت نے اپنے جنگی فضائی گشت یعنی کومبیٹ ائر پیٹرول بڑھا دئے اور اپنے اسرائیلی ساختہ ایواکس طیارے بھی پاکستانی سرحدوں کے قریب اڑانا شروع کر دئے ۔
بھارت کے پاس تین بڑے اسرائیلی ساختہ ایواکس ہیں اور دو چھوٹے نیترا کے نام سے ایواکس ہیں۔
دونوں نیترا ایواکس ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں اور حالت جنگ میں استعمال کے قابل نہیں۔
دو بڑے اسرائیلی ایواکس کافی لمبے وقت کے لئے ہوا میں پرواز کر سکتے ہیں اور کافی دور تک دیکھ سکتے ہیں مگر آخر کار ایندھن اور ضروری مرمت کے لئے لینڈ کرنا پڑتا ہے اور بڑے جھاز کو دوبارہ پرواز کے قابل ہونے میں کافی وقت لگتا ہے ۔
اور چونکہ بھارت کے پاس صرف تین ہی ایسے ایواکس ہیں جو حالات جنگ میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
ان میں سے ایک تفصیلی مرمت کے لیے کہیں ہینگر میں کھڑا ہوتا ہے اور دو ہی قابل استعمال ہوتے ہیں جو کہ باری باری پرواز کرتے ہیں۔
اور یہی مسئلہ بھارت کے پڑے طول وعرض والے ایس یو تھرٹی کے ساتھ ہے ۔
بڑا جھاز ہونے کے ناطے کافی لمبے عرصہ
اور فاصلے تک اڑ سکتا ہے مگر پھر ایندھن اور ضروری مرمت کے کیلئے اترنا پڑتا ہے اور بڑا جھاز ہونے کی وجہ سے اس میں زیادہ وقت لگتا ہے اور کسی چھوٹے جھاز کے مقابلے میں دوبارہ پرواز کے قابل ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے ۔

چھبیس فروری کی بھارتی جارہیت اور دراندازی کے بعد افواج پاکستان نے جلدبازی کرنے سے گریز کیا اور جوابی حملہ کی منصوبہ بندی میں وقت لگایا ۔
اس دوران پاک فضائیہ کے کومبیٹ ائر پیٹرول بھارتی سرحد مے قریب اڑتے رہے اور انھیں باور کراتے رہے کہ جواب آنے والا ہے ۔ اور پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بھی پلان کا حصہ تھی جس کے ذریعے بھارتی افواج میں تجسس پیدا کیا گیا کہ پاکستانی جوابی کارروائی
کب ہوگی ۔
چھبیس فروری کی رات تین بجے کے بعد بھارت نے اپنے ہر طرح کے فضائی گشت بڑھا دئے اور ان کے ایس یو تھرٹی طیارے بڑی تعداد میں فضا میں موجود رہے اور ایواکس بھی مسلسل پرواز کرتا رہا ۔

چھبیس کا دن گزرا اور بھارتی انتظار کرتے رہے ۔ پھر رات آئ اور بھارتی انتظار کرتے رہے ۔ پھر ستائیس کا سورج چڑہا اور اب بھارتیوں کو فضائی گشت کرتے کئی گھنٹے گزر چکے تھے اور ان کے بڑے جہازوں کو ایندھن اور مرمت کے لئے اترنا پڑا ۔
اس وقت بھارتی فضائیہ پاک فضائیہ کے جوابی حملے کا انتظار کر کہ تھک تھکا چکے تھے ، ایواکس اور ایس یو تھرٹی طویل وقت سے پرواز کر رہے تھے اور اب ان کو زمین پہ ایندھن لینے کے لئے اترنا تھا ۔
سکریمبل یا فوری اڑان کے لئے جو جنگی جھاز تیار کھڑے تھے وہ پرانے مگ اکیس تھے -
پاک فضائیہ کا ریڈار نیٹورک اور دوسرے الیکٹرانک انٹیلیجنس اثاثے اس سب پہ نظر رکھے ہوئے تھے -
اور یہی وہ وقت تھا جس کا پاک فضائیہ انتظار کر رہے تھے ۔
اور وقت تھا ستائیس فروری کو دن دس بجے کا۔۔ اور جیسے ہی دشمن کا آسمان صاف ہوا پاک فضائیہ نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا
 
Top